19.4 C
New York
Thursday, May 9, 2024
spot_img

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی 86ویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت و ہدئیہ دعا برائے بلندئ درجات مرحوم درویش مصور پاکستان

امروز 21 اپریل
شاعر مشرق،
حکیم الامت،
صاحب فلسفہءخودی،
بانگ درا،
بال جبریل،
ضرب کلیم،
زبور عجم،
ارمغان حجاز،
دیدہء بینا،
شمع فروزاں،
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی 86ویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت و ہدئیہ دعا برائے بلندئ درجات مرحوم درویش مصور پاکستان
🇵🇰💚🇵🇰💚🇵🇰

احسن الکلام اقبال🏴

ہر کہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رست
جس کسی نے ہوالموجود سے پیمان باندھا اس کی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہو گئی۔
🏴
مومن از عشق است و عشق از مومنست
عشق را ناممکن ما ممکن است
مومن اللہ تعالے کے عشق سے قائم ہے اور عشق کا وجود مومن سے ہے؛ وہ چیزیں جو ہمارے لیے ناممکن ہیں وہ عشق کے نزدیک ممکن ہیں۔
🏴
عقل سفاک است و او سفاک تر
پاک تر چالاک تر بیباک تر
عقل اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسروں کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتی اور عشق اللہ تعالی کی خاطر اپنی جان دینے میں اس سے بڑھ کر ہے۔عشق کے مقاصد عقل سے زیادہ پاکیزہ اور عشق اپنے عمل میں زیادہ تیز رو اور بیباک ہے۔
🏴
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگان باز میدان عمل
عقل اسباب اور وجود کے چکر میں پڑی رہتی ہے؛ عشق میدان عمل کا شہسوار ہے۔
🏴
عشق صید از زور بازو افکند
عقل مکار است و دامی میزند
عشق قوّت بازو سے شکار کو گراتا ہے ؛ عقل مکر ہے اور اپنے شکار کے لیے جال بچھاتی ہے۔
🏴
عقل را سرمایہ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لاینفک است
عقل کا سرمایہ خوف و شک ہے؛ عشق و عزم و یقین لازم و ملزوم ہیں۔
🏴
آن کند تعمیر تا ویران کند
این کند ویران کہ آبادان کند
عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں تعمیر۔
🏴
عقل چون باد است ارزان در جہان
عشق کمیاب و بہای او گران
عقل دنیا میں ہوا کی مانند ارزاں ہے؛ عشق کمیاب اور بیش بہا قیمتی ہے۔
🏴
عقل محکم از اساس چون و چند
عشق عریان از لباس چون و چند
عقل چون و چند ‘کیوں اور کتنا’ کی بنیاد سے محکم ہے؛ اور عشق اس قسم کے لباس سے بے نیاز ہے۔
🏴
عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق گوید امتحان خویش کن
عقل کہتی ہے کہ اپنا مفاد پیش نظر رکھ؛ عشق کہتا ہے کہ اپنی آزمائش کر۔
🏴
عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب
عقل استحصال کی خاطر دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے؛ عشق کا دار و مدار اللہ تعالے کے فضل پر ہے اور وہ اپنا احتساب کرتا ہے۔
🏴
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بندہ شو آزاد شو
عقل کہتی ہے خوش رہو، آباد رہو؛ عشق کہتا ہے اللہ تعالے کی غلامی اختیار کر اور باقی سب سے آزاد ہو جا۔
🏴
عشق را آرام جان حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است
عشق کو آزادی میں تسکین دل ملتی ہے؛ اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔
🏴
آن شنیدستی کہ ہنگام نبرد
عشق با عقل ہوس پرور چہ کرد
کیا تو نے سنا کہ بوقت قتال عشق نے
عقل ہوس پرور سے کیا کیا۔
🏴
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول
وہ عاشقوں کے امام؛ سیدنا فاطمہ (س) کے فرزند؛ جو حضور اکرم (ص) کے باغ کے سرو آزاد تھے۔
🏴
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
ان کے والد (ع) کا مرتبہ “ہائے بسم اللہ” کا سا تھا اور سیدنا حسین (ع) ذبح عظیم کی تعبیر ہیں۔
🏴
بہر آن شہزادہ ئ خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
بہترین امت (امت مسلمہ) کے اس شہزادے کے لیے حضور (ص) ختم المرسلین کا دوش مبارک سواری تھی، اور کیا اچھی سواری تھی۔
🏴
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او
عشق غیّور ان کے خون سے سرخرو ہوا؛ مصرعہء عشق کی شوخی اسی مضمون (واقعہء کربلا) سے ہے۔
🏴
در میان امت ان کیوان جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب
یہ بلند مرتبت شخصیت امت کے درمیان یوں ہے جیسے قرآن پاک میں سورہ اخلاص۔
🏴
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
موسی و فرعون اور شبیر و یزید؛ یہ دونوں قوتیں حیات ہی کا اظہار ہیں۔
🏴
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
حق قوّت شبیری سے زندہ ہے؛ اور باطل کا انجام حسرت کی موت ہے۔
🏴
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن پاک سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے حریت کے حلق کے اندر زہر انڈیل دیا۔
🏴
خاست آن سر جلوہ ی خیرالامم
چون سحاب قبلہ باران در قدم
یہ حالت دیکھ کر بہترین امت کا وہ جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلہ کی جانب سے بارش سے بھرپور بادل۔
🏴
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا ؛ اس ویرانے میں گل ہائے لالہ اگائے اور آگے بڑھ گیا۔
🏴
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
اس نے قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی؛ اس کی موج سے ایک نیا چمن پیدا ہوا۔
🏴
بہر حق در خاک و خون غلتیدہ است
پس بنای لاالہ گردیدہ است
سیدنا حسین (ع) حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹے؛ اس لیے وہ لاالہ کی بنیاد بن گئے۔
🏴
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر
اگر ان کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے ساز و سامان کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے۔
🏴
دشمنان چون ریگ صحرا لاتعد
دوستان او بہ یزدان ہم عدد
دشمن ریگ صحرا کے ذرّوں کی مانند لا تعداد تھے اور ان کے دوست لفظ یزداں کے ہم عدد (بہتر (72) تھے)۔

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

0FansLike
3,912FollowersFollow
0SubscribersSubscribe
- Advertisement -spot_img

Latest Articles